

Mulana Syed Abdul Majeed Nadeem Shah Sahib
مولانا سید عبد المجید ندیم شاہ صاحب
تحریر:مولانا فداحسین ملاخیل
مولانا عبدالمجید ندیم شاہ صاحب کی یاد میں
دنیائے فانی کا دستور ہے…کہ یہاں نا کوئ آتا اپنی مرضی سے ہے نا جاتا اپنی مرضی سے… بابا آدم سے لے کر اب تک کی تمام خلقت ایک محدود وقت تک ہے…پھر بالآخر موت ہے…یہ موت ایسی شئے ہے کہ انبیاء اتقیاء صلحاء علماء .. سب ہی اس موت سے گلے ملے اور باقی رہنے والوں کو اپنی یادوں اور باتوں کے سہارے چھوڑ کر ابدی نیند سوگئیے… ایک پنجابی شعر ہے… کسے رہنا نئیں اس دنیا تے اے دنیا یار پرائ ہے… بھانویں عمر ہزاراں سال ہووے ہک روز جدائ جدائ ہے… اللہ تبارک تعالٰی کی حکمت ہے کہ انسانوں میں سے کسی کو چن کر ڈاکٹر شیر علی شاہ بنا دے یا پھرکسی کو شاہ عبد المجید ندیم (رح)… اللہ کی شان ہے…کہ کسی کا علم دنیا میں ممتاز کردے…یا پھر علم کے ساتھ کسی کا انداز بیاں ایسا دلوں میں اتارے کہ اُس جیسا کوئ اور نا ملے… چند ماہ قبل مولانا عالَم شیر دامانی صاحب کا چلے جانا…پھر ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کا داغِ مفارقت دینا…اور آج میرے انتہائ پسندیدہ خطیب مولانا عبد المجیدندیم شاہ صاحب کا دارِ فانی سے کوچ کرجانا…انکی وفات ایسے زخم ہیں کہ جو کبھی بھر بھی جائیں تو گہرے نشاں باقی رہ جائینگے… سلطنتِ خطابت کے منفرد بادشاہ سیّد عبد المجید ندیم شاہ صاحب ایک بدیع اندازِ بیاں کے مالک…بیان ایسا کہ ہزاروں افراد پر سکتہ طاری ہوجائے… سفرِ حیات کا تھکا مسافر،تھکاہے ایسا کہ سوگیا ہے… خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں ہرآنکھ لیکن بھگو گیا ہے… حضرت شاہ صاحب کا پہلا دیدار 2004 میں ہوا…ملیر کی ایک مسجد میں حضرت کا بیان تھا اور مجھے نعت کے لئے بلایا گیا…اللہ کا بڑا فضل ہے…کہ پہلی بار اللہ نے شاہ صاحب سے ایسا ملوایا کہ وہ دن میرے سنہرے دنوں میں شمار ہوگیا…یہ میری پہلی ملاقات تھی…اور پھر الحمد للہ تقریباً تین بار مختلف پروگراموں میں انکے سامنے نعت پڑھنے کا موقع ملا… میری خوش قسمتی ہے کہ حضرت شاہ صاحب سے آٹھ نو بار ملاقات ہوئ… مجھے یاد ہے …کہ جب ہوش سمبھالا تو گھر میں ایک چاپانی ٹیپ ریکارڈ تھا اور خطیبوں کی بے شمار کیسٹیں تھی جو چلتی رہتی تھیں…تب سے ان خطیبوں اور گزرے زمانے کے نعت خوانوں کو جاننے لگا… اللہ میری والدہ کو لمبی عمر عطا فرمائے کہ والدہ نے بچپن سے ہمیں ایسا ماحول فراہم کیا…اور ایسے بزرگوں سے آشنا کروایا…امی جان کے صدقے ایسے ایسے علماء اور بزرگوں کو پہچانا کہ دنیا میں جن کی مثال نہیں…تاریخ جنہیں سنہرے لفظوں سے یاد کرتی ہے… شاہ صاحب کی جوانی کی تقاریر سنتے سنتے جواں ہوئے…اور اب جب جواں ہوئے اور مزید سننا چاہا تو شاہ صاحب آخری منزل کی جانب رواں دواں ہوئے… بلا شبھہ شاہ صاحب ایسے لوگوں میں سے ہیں کہ جن کی کمی کبھی پوری نہیں کی جاسکتی… افففف…اتنے خوبصورت اور بارونق چہرے والے…رہن سہن ایسا کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی انکے سامنے چھوٹے لگیں…اعلی خوشبو اعلٰی لباس اور اعلٰی انداز… بخدا شاہ صاحب سے قدرتی محبت تھی…ان جیسا بننے کی خواہش بچپن سے تھی اور ہے… ایسا ہونہیں سکتا کہ کوئ شاہ صاحب کے سامنے بیٹھے انکا بیاں سنے اور انکی محبت میں گرفتار نا ہو…اندرونِ ملک تو رونقِ محفل تھے ہی بیرون ممالک میں بھی بے حد مقبول…ہر آنکھ جس نے انہیں دیکھا وہ آج یقیناً اشکبار ہوگی… اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا… بہت کچھ لکھنا چاہ رہا ہوں انکی شان میں…افسوس کہ میرے دامن میں اس معیار کے عمدہ و مزیّن الفاظ نہیں… بس مختصر عرض کروں…تو اتنا کہونگا کہ اس دور میں شاہ صاحب دلوں پر راج کرنے والے ایسے شخص تھے کہ یہ زمانہ انکی کمی پوری نہیں کرسکتا… وہ…..وہ تھے…کہ جو پھر نا آئینگے… حبِّ یزداں کا وہ اک استعارہ تھا جو داستاں ہوگیا… اک ستارہ تھا وہ…کہکشاں ہوگیا کہکشاں ہوگیا… دل رو رہا ہے واللہ …غم اس قدر ہے کہ کلیجہ پھٹنے کو ہے… ہائے…انکے لبوں پر بہترین اندازمیں حضرتِ یوسف کا قصہ…اور امی عائشہ کی شان جو شاہ صاحب نے بیاں کی اللہ کی قسم کوئ اور کبھی بیاں نہیں کرسکتا… اب ڈھونڈو انہیں…چراغِ رخِ زیبا لے کر…



تحریر ناگفتنی / مولانا محمد اسماعیل ریحان
خطیب العصر حضرت مولاناسید عبدالمجیدندیم شاہ صاحب جو اسلام کی دعوت اورپیام توحید کی اشاعت کے لیے جوانی
سے بڑھاپے تک ملکوں ملکوں کے سفر پر رہے، تین دسمبر کی صبح اس سفر پر روانہ ہوگئے، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ ان کے جانے سے خطابت کاچمن اجڑگیا۔ اس یادگار عہد کا خاتمہ ہوگیا جس کاباب امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نے وا کیاتھا۔ حضرت خطیب العصرکراچی اکثر تشریف لاتے تھے۔ ہم ان عشاق میں سے تھے جواپنے ماہِ تمام کو دور ہی سے تکتے تھے۔ ایک بار حضرت تشریف لائے (یہ 1985ء کی بات ہے)شاہ صاحب کا لسبیلہ میں قیام تھا۔ میں، ماموں رمضان اور بڑے بھائی حکیم عبدالرحمن ہمت کرکے وہاں پہنچ گئے، مگر دروازے پر عشاق کاپہلے سے ہجوم تھا۔ اس بھیڑمیں اضافے سے حضرت کوتکلیف ہی ہوتی۔ اس لیے ہم واپس ہوگئے۔
ملاقات کی حسرت بہرحال باقی رہی۔ بیس سال گزرگئے۔ اس سال 17مئی کو اللہ نے یہ موقع عطافرمادیا۔ اسامہ مسجد، چوہڑ چوک راولپنڈی کے امام اور بانیٔ مدرسہ حضرت مولاناظہیرالدین امازئی صاحب کے لیے آج تک دل سے دعائیں نکل رہی ہیں کہ جن کے ذریعے یہ سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت شاہ صاحب وہاں بیان کے لیے تشریف لائے تھے۔ الحمد للہ اس سے قبل تقریباً ایک گھنٹے تک مسجد سے ملحق کمرے میںحضرت سے ملاقات اوربات چیت کاموقع ملا۔ حضرت نے بہت ہی محبت و شفقت کا معاملہ فرمایا۔ میںنے ہمیشہ انہیں اسٹیج پر ہی دیکھا تھا، اس لیے قدرتی طورپران کا ایک رعب طاری تھا، مگر ان کے محبت بھر ے جملوں نے تھوڑی ہی دیر میں ایسامانوس کرلیا کہ میں بلاتکلف وہ سوالات پوچھنے لگا جو ایک مدت سے ذہن میں تھے۔
مجھے یاد ہے کہ لڑکپن میں جانباز مرزا کی ’’حیاتِ امیرِ شریعت ‘‘ پڑھ کر میں حضرت شاہ جی رحمہ اللہ کی تقریریں تلاش کرنے کی تگ ودومیں لگ گیاتھا، مگر سالہاسال کی کوشش کے باوجود، صرف چند منٹ کی ایک ریکارڈنگ مل سکی۔ تب میں نے محلے کی بزرگ شخصیت قاری دین محمدصاحب سے پوچھا تھا کہ حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری جیسی تقریرکوئی اوربھی کرتاہے۔ وہ جوکہ شاہ جی کی تقاریرسنے ہوئے تھے، فرمانے لگیـــ:’’ہاں علامہ عبدالمجید ندیم میں انہی کارنگ ہے۔ ‘‘
یہ سوال اس دن میں نے خود حضرت شاہ صاحب سے کرلیا۔ حضرت فرمانے لگے: ’’اس میں توشک نہیں کہ میں حضرت شاہ جی رحمہ اللہ کی شخصیت اوران کے اندازِخطابت سے بہت متاثر تھا، ان کی دعائیں بھی مجھے ملیں۔ اس لیے کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہے، مگر ان کاہوبہو انداز کوئی نہیں اپناسکا۔ شاید اللہ کی طرف سے ایک تکوینی حکمت تھی کہ ان کاعہد انہی پر ختم ہوجائے، اس لیے ان کی کوئی مکمل تقریر بھی محفوظ نہیں ہوئی۔ ‘‘
حضرت شاہ صاحب نے اس ملاقات میں دینی محاذوںپر کام کرنے والوں کے لیے تشدد، خودرائی اوراکابر سے بے اعتنائی کو سخت مضرقراردیا۔ بڑوں پر اعتماد کرنے، ان کے مشوروں کے مطابق چلنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اس دن میں نے شاہ صاحب سے یہ درخواست بھی کی کہ اپنے کچھ حالات ِ زندگی قلم بند کرادیں، کیونکہ حضرت کی ولادت، خاندانی پس منظر، بچپن، تعلیم اورنوجوانی کے بارے میں مجھے ڈھونڈے سے بھی کچھ نہیں ملاتھا۔ میری اس درخواست کے جوا ب میںحضر ت نے حکیمانہ انداز میں فرمایا ـ: ’’ یہ نشست اس طویل موضوع کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ بہت سی باتیں ہیں، تشنہ رہ جائیں گی۔ ‘‘
پھر حضرت نے اپنے خادم بھائی انجم صاحب سے رابطہ رکھنے کاکہا۔ بھائی انجم سے وہیں مل گئے۔ وہ حضرت شاہ صاحب کی تقاریر کو تحریر ی شکل میں لانے کاکام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوںنے بتایاکہ وہ شاہ صاحب کے حالات ِ زندگی بھی جمع کررہے ہیں۔ اللہ کرے یہ کاوش جلد منظر عام پرآجائے تاکہ شاہ صاحب کے علوم وفیوض کی ہر سطح پر مزید بر مزید اشاعت ہو۔ اُس دن اسامہ مسجد میں حضرت کے صاحبزادے مفتی فیصل ندیم صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، جو اپنے والدگرامی کے جانشین ہیں۔ وہ جس اخلاق کے ساتھ پیش آئے، اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اتنی بڑی شخصیت سے نسبی وابستگی کے ساتھ ساتھ طبیعت میں نرمی، انکساری اورمروت بلاشبہ حضرت شاہ صاحب کے حسنِ تربیت کاعکس تھا۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی وفات پر تعزیت کے لیے 5؍ دسمبر کو حمزہ مسجد راول پنڈی حاضری ہوئی (حضرت شاہ صاحب پہلے ملتان میں رہائش پذیر تھے۔ 2001ء میں راول پنڈی منتقل ہوئے، یوں14برس انہوںنے یہاں گزارے )حمزہ مسجد کے مہمان خانے میںمفتی فیصل ندیم صاحب اوران کے برادران سید عارف ندیم اورسید فاروق ندیم سے بھی ملاقات ہوئی۔ (حضرت کے پانچ صاحبزادے ہیں سب سے بڑے سید عبدالباسط ہیں۔ ایک صاحبزادے سید طاہر ندیم 2000ء میں شہید ہوگئے تھے۔ ) تعزیت کرنے والے ملک کے کونے کونے سے آرہے تھے اورشاہ صاحب کی رحلت پر دلی رنج وغم کے اظہار کے ساتھ دعائے مغفرت و رحمت کر رہے تھے۔
مجھے پہلے بھی باربارخیال آتا تھااورشاہ صاحب کی رحلت کے بعدزیادہ شدت سے آرہاہے کہ جس طرح اکابر کی کتب، مدارس وجامعات کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں اسی طرح اکابر کی تقاریروبیانات کی بھی ایک مرکزی لائبریر ی ہونی چاہیے۔ راقم اسکول کے زمانے ہی سے علمائے کرام کی تقریروں کی کیسٹیں جمع کر نے کاشوقین تھا۔ لسبیلہ کے اسلامی ریکارڈنگ سینٹر اورصدر کے پاک ریکارڈنگ سینٹر کے چکر اکثر لگتے رہتے تھے۔ ایک اچھا خاصاذخیرہ جمع کرلیاتھا جس میں سے کچھ گردشِ حالات کی نذر ہوگیااورکچھ اب بھی باقی ہے۔ کیسٹوں سے سی ڈیز کازمانہ آیا، تومیں تقاریر ِ علماء کی سی ڈیز جمع کرنے لگا۔ پھر انٹر نیٹ سے بھی بیانات ڈاؤن لوڈ کرنے کاسلسلہ بھی رہا۔ اب بھی ایک ہارڈ ڈسک میںتقاریر وبیانات کاخاصاذخیرہ جمع ہے، مگر درحقیقت یہ دریاکاایک قطرہ ہے۔
حضرت خطیب العصر رحمہ اللہ میرے پسندیدہ مقررتھے، اس لیے چندسال پہلے مجھے خیال آیاکہ حضرت کے تمام بیانات جمع کیے جائیں۔ سب سے زیادہ تلاش مجھے اس تقریر کی تھی جو اپریل 1981ء کے جلسے میں روبرو سنی تھی، مگر کسی جگہ بھی وہ نہ مل سکی۔ اسی سلسلے میںبڑی مدت بعد پاک ریکارڈنگ سینٹرجاناہوا۔ وہاں کے یوسف بھائی نے مجھے پہچان لیا۔ میں نے کہا :’’مجھے مولانا عبد المجیدندیم صاحب کی اپریل 1981ء والی تقریرچاہیے۔ ‘‘
یوسف بھائی نے پوچھا: ’’موضوع ؟‘‘ میں نے کہا:’’خلفائے راشدین ‘‘ یوسف بھائی کاحافظہ بہت اچھاہے، کہنے لگے :’’ایسی ایک پرانی تقریر ہے توسہی، مگر لوگ اسے طلب نہیں کرتے اس لیے اس کی کاپیاں بناکرنہیں رکھی ہیں۔ آپ کچھ دنوں بعد آجائیں۔ مجھے اسٹورمیں اس کی ماسٹرکاپی تلاش کرنا پڑے گی۔ اگرمل گئی توکاپی کردوں گا۔ ‘‘
میںنے کچھ دنوں بعد فون پر رابطہ کیااورپھر پاک ریکارڈنگ سینٹر پہنچ گیا۔ یوسف بھائی نے تقریر ڈھونڈ نکالی تھی۔ وہ خود بھی شاہ صاحب کی تقریروں کے رسیا تھے۔ مجھے دیکھ کرکہنے لگے :’’شاہ صاحب کی یہ تقریر بہت ہی زبردست ہے۔ آپ واقعی باذوق ہیں کہ ایسی تقریر تلاش کروائی۔ ‘‘
پھرانہوںنے کیسٹ کاپی کرکے دے دی اور میں یہ خزانہ لیے نہایت شاداں و فرحاں گھر لوٹا۔ گھر میں والدین، بھائیوں اور بچوں کو بٹھاکر جب یہ کیسٹ چلائی تو ایسالگا جیسے کھوئی ہوئی بہار دوبارہ آگئی ہو۔
کیسٹوں کی دکانوں میں عام طورپر کسی بڑے سے بڑے مشہور خطیب کی بھی پچاس ساٹھ کیسٹس لگی ہوتی ہیں، کیونکہ پرانی کیسٹیں عام طورپر لوگ نہیں مانگتے۔ ماسٹر کاپیاں کچھ مدت تک اسٹورمیں رہتی ہیں اور پھر مرورِ زمانہ کی نذر ہوجاتی ہیں۔ آج آپ حضرت مفتی محمود یاحضرت مولاناعبدالشکور دین پوری کی تقاریر جمع کرناچاہیں تو بہت سی دکانوں کاچکر لگاکربھی شاید پندرہ بیس کیسٹیں ہاتھ آئیں گی، حالانکہ پچیس تیس سال پہلے ہر دکان پر ان کی درجنوں تقاریر گاہکوں کے لیے تیار ہوتی تھیں، مگر آج وہ کیسٹیں کہاں گئیں۔ حضرت مولانا عبدالمجید ندیم صاحب نے اپنی 75 سالہ زندگی میں سے کم وبیش 55 سال دین کی تبلیغ میں گزارے۔ اس زمانے میں بہت کم دن ایسے ہوں گے جن میں انہوںنے کہیں تقریر نہ کی ہو۔ بلامبالغہ ان کے بیانات کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں سے کئی سو یقینا ریکارڈ کرکے مارکیٹ میں فروخت کیے گئے ہیں، مگرہمیں کسی بڑے سے بڑے کیسٹ گھر یا سی ڈیز کی دکان میںان کی ساٹھ، سترسے زائد تقاریر نہیں مل پاتیں۔ آخر وہ ذخیرہ کہاں گیا۔ میں کئی سالوں سے بعض علماء کی کچھ تقاریر تلاش کررہاہوں، وہ کسی دکان میں ہیں نہ انٹرنیٹ پر۔ ایسے میں نہایت ضروری ہے کہ کوئی بندہ ٔ خدا اِ س کام کے لیے اٹھے۔ یہ کیسٹیں جو منظر عام سے غائب ہیں، آج کسی نہ کسی گھر میں کسی الماری یاصندوق میں مقفل ہوں گی، مگر شاید دس بیس سال بعد ان کابیشتر حصہ تلف ہوچکاہو۔ جیساکہ خو د میرے ذخیرے سے بہت کچھ گم ہوچکاہے۔ یہ کرنے کاکام ہے، کوئی ادارہ ایسی ’’صوتی لائبریری ‘‘ بنا ئے اورپھر اسے آن لائن کردے۔ ہمار ے اکابر کاعظیم علمی ورثہ محفوظ ہوجائے گا اور کرنے والے صدقۂ جاریہ کااجرِ عظیم پاتارہے گا۔http://www.zarbemomin.com.pk/index.php/molana-muahmmad-ismail-rehan/794-khateeb-al-asar-ki-kuch-yadeen













مولانا عبدالمجید شاہ ندیم اور ان کی فکر
خطیب العصر واعظ خوش الحان مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ بھی راہی ملک بقا ہوگئے ۔ مولاناندیم ؒ ایک کہنہ مشق خطیب
تھے،جنھوں نے نصف صدی چار دانگ عالم میں توحید و سنت، خلافت راشدہ، امہات المومنین، اہلبیت رسولﷺو صحابہ کرامؓ کی عظمت کے زمزمے گائے،ترانے کہرائے،ڈنکا بجایا اور لاکھوں لوگوں کی روحانی حیات تازہ کا سامان فراہم کیا،اس نے خطابت کاآہنگ شہنشاہ خطابت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ سے سیکھا،جو ان کا آئیڈیل بھی تھے اور شاہ جی ؒ کی طرح مترنم و دل سوز آواز میں قرآن مجید کی تلاوت ان کی پہچان تھی، وہ ہزاروں کے اجتماع سے کئی کئی گھنٹے مخاطب رہتے، قرآن و سنت کے موتی رولتے،، تلاوت قرآن ایسے مزے سے کرتے کہ جس کی لذت حاضرین کے قلب و ذہن میں پیوست ہو کر رہ جاتی، خود بھی تڑپتے اور ہزاروں لوگوں کو بھی تڑپاتے تھے ۔شاہ جی کے اس انداز کو بہت سے خطیبوں نے اپنانے کی کوشش کی ہوگی ،مگر بلا مبالغہ انھیں اس انداز میں شاہ جی کا نقش ثانی کہا جاسکتاہے۔ہمیں اس بات کی کوئی مستند تصدیق تو نہ ہو سکی ،البتہ غالب گمان ہمارا یہی ہے کہ انھوں نے اپناتخلص ’’ندیم‘‘بھی شاہ جی ؒ سے متاثر ہوکر اختیار کیا ہوگا۔واللہ اعلم!
بہر حال ان کے مواعظ وخطبات سننے والے جانتے ہیں کہ انھوں نے اپنی خطابت کا مرکزی محور ہمیشہ توحید کی دعوت کو بنائے رکھا،سورہ فاتحہ کو جب وہ اپنے مخصوص انداز سے ترجمے کے ساتھ پڑھتے تھے اور’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں‘‘کے دوران’’ہی‘‘کے الفاظ پر زور دیتے اور پورے مجمعے سے کہلواتے تھے تو ایک سماں بندھ جاتاتھا۔یقیناًیہ ایمان افروز منظر وقت کے لات ومنات وعزیٰ اور فراعین زماں کے در ودیوار میں لرزہ طاری کر دیتا تھا۔ہم نے ان کی خطابت کا شباب تو نہیں دیکھا،مگر بڑوں سے سنا ضرور ہے کہ کوئی جلسہ اور پروگرام ،خواہ وہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا ہو،جمعیت علمائے اسلام کا ہو،سیرت کانفرنس ہو یا کسی بڑے مدرسے میں دستار بندی کی تقریب،شاہ صاحب کی موجودگی اس کی کامیابی کی دلیل ہوا کرتی تھی۔ان کے خطبات ومواعظ کی کیسٹیں، سی ڈیز ،کمپیوٹر وانٹرنیٹ کے دور میں بھی فروخت کا اپنا ریکارڈ بر قرار رکھے ہوئے تھیں۔
شاہ صاحب نے اپنی خطابت کو جنس بازار بننے نہ دیا۔یہ ان کی مقصد ومشن سے وابستگی اور کمال اخلاص ہی کا کرشمہ تھا کہ کسی قسم کی سیاسی شناخت اور عہدہ ومنصب اور روایتی عوامی حمایت نہ ہونے کے باوجود ان کی خطابت کے سامنے مخالفین کے بڑے بڑے خطیبوں کی خطابت ماند پڑجاتی تھی۔یہ دور خوش الحان واعظین کانہیں ،لوگ اب سادہ طرز بیان کو پسند کرتے ہیںیا پھر پر جوش خطیبوں کے دل دادہ ہیں،شاید یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں اپنی تقریبات وپروگرامات میں خوش الحان واعظین کو مدعو کرنے کا رواج ختم ہو تا جارہاہے ،اس کے باوجود علامہ سید عبدالمجید ندیم شاہ کو پروگراموں میں مدعو کیاجاتا تھا،شاید اس لیے کہ ان کی خوش الحانی صرف خوش گلوئی تک محدود نہ تھی ،بلکہ اس میں سوز بھی تھااور’’ازدل خیزد بر دل ریزد‘‘کے مصداق ان کی بات مجمع کے دل ودماغ پر اثر کرتی تھی اور ان کا بیان سننے والا ان کی فکر کو نہ صرف قبول کر کے اٹھتا تھا،بلکہ وہ اس فکر کا داعی بن جاتاتھا۔یورپی اور افریقی ممالک کے دوروں کے دوران ان کی تقریروں سے متاثر ہو کر سیکڑوں غیر مسلم اسلام کے دامن رحمت میں آئے،یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں انہیں سفیر اسلام کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
آخر میں ہم خطیب العصر سفیر اسلام حضرت مولانا علامہ سید عبد المجید ندیم شاہ نوراللہ مرقدہ کے چند زریں خیالات نذر قارئین کررہے ہیں،جوانھوں نے ایک معاصر روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے ظاہر فرمائے تھے ،کہ اس میں ہمارے لیے سوچنے ،سمجھنے اورعمل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ:
۔۔۔مدارس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،دینی مدارس معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود مدارس کے نصاب میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ مدارس میں صرف رٹا لگوایا جاتا ہے، ذہن سازی تو ہوتی ہے لیکن انسان سازی ناپید ہے۔
۔۔۔ افسوس آج کل علما نہیں بلکہ علما نما لوگ تیار ہو رہے ہیں، علماء جیسی وضع قطع رہ گئی ہے، علما ختم ہوچکے ہیں۔ جہاں علم ہوگا وہاں حلم، برداشت، تحمل ،عشق و سوز ہوگا۔
۔۔۔ہمارے مدارس نے تو مسجدوں کے موذن اور مظلوم امام تیار کیے، ان میں کوئی بھی ابن تیمیہ، شاہ عبدالعزیز ،شاہ عبدالقادر ،عبدالرحمن جامی رحمھم اللہ تعالیٰ جیسا کیوں پیدا نہیں ہو رہا؟
۔۔۔ مدارس روشن دماغ تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ اس دور میں روشن ضمیروں کی ضرورت ہے۔روشن دماغ کبھی گنگا اور کبھی جمنا میں وضو کرتے اور قبلے بدلتے رہتے ہیں، جبکہ روشن ضمیر لوگ ہی امید کی کرن ہوتے ہیں۔
ان کی اس گفت گو میں دینی مدارس پر تنقید جھلک رہی ہے،لیکن اگر تعصب کی عینک لگائے بغیرحقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ کوئی تنقید برائے تنقید نہیں،بلکہ نصف صدی سے توحید وسنت کے زمزے بلند کرنے والا یہ جہاں دیدہ خطیب اس دور میں اپنے گرد وپیش جو کچھ دیکھ رہا تھا،اس کا تجزیہ ، تصویر کشی اور دل سوزی کے ساتھ مرض کی تشخیص ہے۔کیا واقعی ہمارے نئے فضلائے مدارس کی اکثریت علامہ مرحوم کی ’’روشن دماغ‘‘والی اصطلاح پر پورا نہیں اترتی؟کیا ہمارا فاضل آج اپنے مفادات،دھن دولت کے حصول،شہرت کی دوڑ میں آگے نکلنے کی دھن میں گنگا،جمنا سے وضو نہیں کررہا؟قبلے نہیں بدل رہا؟
مولانا عبدالمجید ندیم شاہ ؒ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی درویشانہ سیاست سے سب سے زیادہ متاثرتھے،انھی کے دور میں جمعیت علمائے اسلام سے منسلک ہوئے اور مولانا مفتی محمود ؒ کی زندگی میں ان سے پیدا ہونے والی انسیت اور تعلق کو تاحیات نبھایا،وہ مولانا فضل الرحمن کے قریب ترین اور بااعتماد دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے ۔اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کے وابستگان ومنتسبین کو ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین